آخرکار وہ کیا وجوہات تھیں جو ایک لڑکے نے عام آدمی کی زندگی بدل دی .

سڑک پرٹریفک رواں دواں تھا اور ہم بھی اپنی بس کا انتظار کر رہے تھے لیکن دماغ کی سوئی تو بس ایک جگا اٹک کر رہے گئی تھی کے کیا آج سے سو سال پہلے بھی یہ ٹریفک اسی طرح تھا آخرکار ایسی کیا وجوہات تھیں جو ایک 27 سالہ نوجوان نے سفر کو جدت دینے کی ٹھانی۔

یقیناً آپ کو ہماری  باتوں سے اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کے ہمارا اشارہ کس شخصیت کی طرف ہے  

اگر نہیں ہوا تو ہم آپ کا تعرف آج ایک ایسی شخصیت سے  کرواتے ہیں  جس نے سفر کی دنیا میں جدت پیدا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا.

جی ہاں آج کا ہمارا عنوان کارل بینز اور ان کی وہ ایجاد ہے جس نے سفر اور سواری کے میدان میں جدت  پیدا کی

 کارل بینز 

آپ 25 نومبر 1844 کو مھلبرگ .بدن ،جرمنی میں پیدا ہوۓ آپ نے یونیورسٹی اف کارلسوہے سے لوکوموٹو انجینرنگ  

کی ڈگری حاصل کی اور آپ کی  وفات 04 اپریل 1929 کو 84 سال کی عمر میں ہوئی 

کارل نے ساتھ سال تک مختلف کمپنیوں میں پروفیشنل ٹریننگ حاصل کی  اور پھر مننھیم میں رتڑ کے ساتھ مل کر آئرن فیکٹری شروع کی جس کا بعد میں نام تبدیل کردیا گیا .

یہ انٹرپرائز ہونے شرواتی دور سے زبوحالی کا شکاررہی اور زبوحالی کا شکار ہوتی چلی گئی اس  انٹرپرائز کی صورتحال میں تبدیلی اسوقت رونما ہوئی جب برتھا رنگر (کارل کی منگیتر ) نے ریتٹر کے کمپنی حصص  خرید لئے 20جولائی 1872 کو برتھا اور کارل نے شادی کر لی

تمام خراب صورتحال کے باوجود کارل  نے اپنے تجربات پر کام جاری رکھا اپنی کمپنی کے مالی حالات کو بہتر کرنے کے لیے کارل نے سنہ 1878 میں ایک  نئے  تجربہ پر کام شروع کیا 

اور اپنی تمام تر توجہ ٹوو سٹروک پیٹرول انجن کی دریافت پر مرکوز کر دی  اور 31 دسمبر 1879 کو دریافت مکمل کی  اور 28 جون 1880 کو اپنے تجربات اور ایجادات کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنی ایجاد کو اپنے نام  پر  رجسٹرڈ کروایا

  ٹوو سٹروک پیٹرول انجن 

 ایک بار پھر کارل کے لیے شروع ہوئی جب بینک نے کمپنی کی مالی ساخت کو مستحکم نہ رکھنے کی وجہ سے اضافی تعاون فرا ہم کرنے کے لے شرایط عا ید کیں اور نتیجتاً   کارل کے پاس صرف پانچ فیصد حصص رہے گیا 

.لہٰذا ایک سال بعد سنہ 1883 میں آ پ  اس کارپوریشن سے دستبردار ہوگئے

کارل کا پرانا مشغلہ اُسے سائیکل کی دوکان پر لے آیا جو کے فریڈریچ ولہیلم ایلنگر کی ملکیت تھی سنہ1883ء میں ان تینوں نے صنعتی مشینوں کی کمپنی شروع کی اس کمپنی کا رجسٹرڈ نام رائنسے گیسوموٹورن فابریک تھا لیکن اسے عام طور پر بینز اینڈ کمپنی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

یہاں پر یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اب تک تمام عام و خاص لوگ وہی گھوڑے والی گاڑی استعمال کرتے تھے جو برصغیر میں بگی اور تانگے کے نام سے مشھور تھی۔

بینز اینڈ کمپنی نے شروعات میں ہی ترقی کی راہیں طے کرنا شروع کردیں اور اسی کامیابی کی بدولت کارل نے اپنے پرانے آئیڈے پر کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی اپنے تجربے اور شوق کی بنیاد پرایک بڑی کامیابی حاصل کی۔

کارل نے تین عدد وائر ویل، ایک عدد کوئیل اگنیشن اور جدید ایوپوریشن کولنگ سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے ایک آٹو موبائل تیار کی اس کی خود کار پاور پیدا کرنے کی صلاحیت اور اس کا جیدد کولنگ سسٹم اس کی خصوصیات میں اضافہ کرتی تھی۔

سنہ 1885ء میں کارل نے اپنی تخلیق مکمل کی اور اس کا نام "بینز پیٹنٹ موٹر ویگن" رکھا گیا اور اپنی ایجاد کا پہلا عملی مظہرہ کرتے ہوئے  29 جنوری 1886ء کو اپنے نام پر ریجسٹرڈ کروایا متعدد ترمیم کے ساتھ اگلے ہی سال سنہ 1887ء میں ایک نیا ماڈل متعراف کرویا گیا۔

سنہ1888ء کے ایکسپو میں بہت سے تجربات اور مشکل مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر حتمی ماڈل متعارف کروایا گیا یہ ماڈل چار پیہوں پر مشتعمل ایک گاڑی متعارف تھی جسے ویگن کا نام دیا گیا اور اگلے ہی سال یہ گاڑی فروخت کے لئے مارکیٹ میں دستیاب تھی۔

ابتدائی ماڈل انجن صرف دو گئیر پر مشتمل تھا اور اس میں اُنچے اور دشوار گزار پہاٰڑی راستوں پر چلنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔

اپنے ایک مشہور سفر کے دوران برتھا بینز نے ایک اچھی ہمسفر(بیوی) ہونے کے ناطہ نہ صرف انجن میں تیسرا گئر شامل کرنے کا مشورہ دیا بلکہ بریک پیڈ ایجاد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

برتھا بینز 

ہم یہ نہیں کہتے کہ آج جو انجن ہم اپنی گاڑیوں میں عام طور پر استعمال کرتے ہیں وہ بلکل ویسی ہی اصل ہے۔ 

لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ آج آٹو موبائل انڈسٹری جتنی ترقی کر رہی ہے اُس کا سہرا کارل بینز اور اُن کی اہلیہ کے سر جاتا ہے۔ سید مرتضٰی حسن

اب تک کے بلاگ میں ہمارا ساتھ دینے کا شکریہ۔

     

 

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/post.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2FAssociateEngineerSyedZaidi786541%2Fposts%2F107740194571357&width=500&show_text=true&height=311&appId" width="500" height="311" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowfullscreen="true" allow="autoplay; clipboard-write; encrypted-media; picture-in-picture; web-share"></iframe> 

Post a Comment

0 Comments