ویسے دیکھا جائے تو انسان اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لئے آئے روز جدید سے جدید تر چیزوں کی کھوج میں مصروف عمل رہتا ہے لیکن دیکھا جائے تو باز اوقات انسان کی ایجاد جہاں اس کی روزمرہ کی زندگی کو سہل بنا رہی ہوتی وہیں آہستہ آہستہ اردگرد کے ماحول کی تباہی کا سبب بھی بن رہی ہوتی ہیں جس کا احساس یا تو بہت پہلے ہوجاتا ہے یا پھر بہت دیر سے۔
ایسے ہی ایک احساس اور اپنی ایجاد کو ماحول دوست بنانے کے نتیجہ میں برقی گاڑی کو ایجاد کیا گیا جی جناب آج ہمارا موضوعِ گفتگو ایک ایسی گاڑی ہے جو کہ نہ صرف ماحول دوست ہونے کے ساتھ تیزرفتار بھی ثابت ہوئی
یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ برقی گاڑی سے مراد وہ گاڑی ہے جو ایک مخصوص طریقہ کے ساتھ بجلی کی مدد سے چلتی ہے
یوں تو یہ برقی گاڑیاں کارل بینز کی ایجاد سے کافی عرصہ پہلے ایجاد ہوئی تھیں لیکن چند اہم وجوہات کی بنا پر خاص شہرت حاصل نہ کرسکی دنیا کی سب سے پہلی برقی گاڑی کی ایجاد سنہ 1828ء میں ہوئی اس ایجاد کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی تیاری میں مختلف شخصیات نے اہم کردار ادا کیا سنہ 1828ء میں ہینگری سے تعلق رکھنے والے انجینر انیوس استیوان جدلک نے بجلی کی مدد سے چلنے والی چھوٹی ماڈل کار کی تیاری کے ساتھ اس ایجاد کی بنیاد ڈالی
|
انیوس استیوان جدلک |
|
انیوس استیوان جدلک ماڈل کار |
بعدازاں سنہ 1832ء سے 1839ء کے ساتھ سالہ دورانیہ میں ایک خام برقی گاڑی متعارف کروائی جس کے موجد سکاوٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے رابرٹ انڈرسن تھے
|
رابرٹ انڈرسن
|
|
خام برقی گاڑی |
اسی دوران سنہ 1835ء میں نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سائیبرینڈز سٹریٹھینگ نے اپنے معاون کی مدد سے ایک چھوٹی برقی گاڑی متعارف کروائی جس کی بیٹری دوبارہ استعمال کے قابل نہ تھی
|
پروفیسر سائیبرینڈز سٹریٹھینگ |
|
پروفیسر سائیبرینڈز سٹریٹھینگ کی برقی گاڑی |
سنہ 1880ء برقی طاقت سے چلنے والی پہلی باقاعدہ تجرباتی گاڑی کی تیاری کے ساتھ ایجادات کے اس سلسلہ کوتقویت حاصل ہوئی جس کی موجد فرانس سے تعلق رکھنے والے الیکڑیکل انجینر گسٹاو پیئر ٹرؤ تھے گسٹاو کی اس ایجاد میں اہم کردار فرانس سے تعلق رکھنے والے ماہرِ طبیعات گیسٹون پلینٹے کی زیادہ طاقت کی حامل لیڈ-ایسڈ بیٹری کی ایجاد نے ادا کیا جس کے ڈیزائن کو فرانس ہی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کیمیاء دان کیملی الفونس فاورے نے اس بیٹری کے ڈیزائن کو جدت بخشی۔
|
الیکڑیکل انجینر گسٹاو پیئر ٹرؤ |
|
الیکڑیکل انجینر گسٹاو پیئر ٹرؤ کی برقی گاڑی |
گسٹاو کی یہ گاڑی ایک عدد سیمنز کی تیاری کردہ ایک چھوٹی موٹر جس کی رفتار کو گسٹاو کی جانب سے بہت بنایا گیا تھا ،ایک عدد بیٹری اور جیمز سٹارلے کی تیارکردہ سائیکل کی مدد سے تیار کیا گیا تھا 19اپریل سنہ 1881ء میں اس گاڑی نے پیرس کی گلیوں میں اپنا پہلا کامیاب تجرباتی سفر کیا بعدازں اسی سال نومبر میں اسے پیرس میں منعقد ایک بین القوامی میٹنگ الیکٹرک کانگرس میں پیش کیا گیا۔ لیکن چند وجوہات کی بدولت گسٹاو کی یہ ایجاد اُن کے نام پر درج نہ ہوسکی
ذرا ٹھرئیے کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ برقی گاڑیوں کی ایجاد اور اُنہیں جدت دینے کا سفر یہیں اختتام پزیر ہوگیا تو جناب ایسا بلکل بھی نہیں ہے گسٹاو کی ایجاد کے ٹھیک تین سال بعد سنہ 1884ء میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور موجد اور الیکٹریکل انجینر تھومس پارکر نے ایک مکمل تجرباتی گاڑی تیار کی جسے پارکر نے ایک خاص قسم کی بیٹری کا استعمال کیا
|
الیکٹریکل انجینر تھومس پارکر کی برقی گاڑی |
|
الیکٹریکل انجینر تھومس پارکر |
بعدازاں سنہ 1888ء میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے موجد اینڈریس فلوکین نے اپنی کمپنی ماسچینن فابریک کے لئے فلوکین الیکٹرویگن کے نام سے پہلی مکمل طور پر عام استعمال کے لائک گاڑی تیار کی
|
اینڈریس فلوکین |
|
فلوکین الیکٹرویگن |
یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ فرانس اور برطانیہ دنیا کے وہ واحد ممالک ہیں جہاں برقی گاڑیوں کی ایجاد ،تیاری اور اُنہیں جدت دینے میں وسیع پیمانے پر کام کیا گیا
دنیا کے باقی ممالک کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے برقی گاڑیوں کی ایجاد کی اس دوڑ میں جلد شمولیت اختیار کرتے ہوئے سنہ 1890ء سے 1891ء کے نو سالہ دور کے دوران سکاوٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کیمیادان ولیم موریسن نے ڈیس موئنز ، آئیووا میں خطہ کی پہلی برقی گاڑی تیار کی موریسن کی یہ گاڑی 6 افراد کے سفر کے قابل اور 23 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی حامل تھِی
|
ولیم موریسن |
|
ولیم موریسن کی برقی گاڑی |
ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارویں صدی کے اختتام کے تک 33،842 برقی گاڑیوں کے اندراج کے ساتھ امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں برقی گاڑیوں کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا جارہا تھا ان گاڑیوں کی شہرت کی ایک بڑی وجہ اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے صارفین تھے جس کی ایک بڑِی مثال سنہ 1897ء میں نیویورک شہر میں چلنے والی 60 سے زائد برقی گاڑیوں کو عام ٹیکسی کے طور پر سٰمُول الیکٹرک کیرج اینڈ ویگن کمپنی کے زیرِ انتظام چلایا جا رہا تھا
|
ٹیکسی |
بیسویں صدی کی شروعات امریکہ میں قائم بہت سے کارخانوں نے عام استعمال کے لئے الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کا کام شروع کردیا جس میں (اینتھونی الیکٹرک، بیکر، کولمبیا، اینڈرسن، ایڈسن، ملبرن، بیلے الیکٹرک، رائیکر، ڈیٹورائٹ الیکٹرک) اور بہت سی مشہور کمپنیوں کے نام شامل کئے جاتے ہیں
|
بیلے الیکٹرک |
|
بیکر |
|
کولمبیا |
|
ڈیٹورائٹ الیکٹرک |
|
ملبرن |
|
اینڈرسن |
|
رائیکر |
لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ برقی گاڑیوں کے استعمال کی اس دوڑ میں برطانیہ کسی سے پیچھے نہیں ہے انیسویں صدی کے آخری چند سالوں میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے الیکٹریکل انجینر والٹر چارلس بیرسے نے لندن شہر میں برقی گاڑی کو ٹیکسی کے طور پر متعارف کروایا جو بعدازاں اپنی آواز کی بدولت ہمنگ برڈ کے نام سے مقبول ہوئی
|
الیکٹریکل انجینر والٹر چارلس بیرسے |
|
ٹیکسی |
بیسویں صدی کی شروعات تک کامیابیاں سمٹنے کے بعد برقی گاڑیوں نے اپنی آفادیت اور شہرت کہونا شروع کردی جس کی ایک بڑی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی تیل اور گیس کے زخائر کی دریافت، سنہ 1920ء میں سڑکوں کے انفراسٹریکچر میں بہتری اور گیس کی طاقت سے چلنے والی گاڑیوں کی نسبت برقی گاڑیوں کی رفتار میں کمی اور مارکیٹ میں قیمت فروخت مہنگا ہونا بھی اس کی تنزلی کا ایک بڑا سبب بنی جس کی بدولت سنہ 1910ء میں بہت سی برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے کام کرنا بند کردیا تھا۔
برقی گاڑیوں کی اس تنزلی کے چالیس سے زائد سال گزرنے کے بعد سنہ 1959ء میں امریکن موٹر کارپوریشن اور سونوٹون کارپوریشن کی مشترکہ کاوشوں اور تحقیق کے بہتر ڈزائن کے ساتھ برقی گاڑی تیار کی گئی جسے ہینی کلوواٹ کا نام دیاگیا اس گاڑی کو ہینی موٹر کمپنی کے زیرِ انتظام تیار کیا گیا یہ گاڑی ایک عدد 5.2کلو واٹ الیکٹرک موٹرپر مشتمل ہونے کے ساتھ 64کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی قابلیت رکھتی تھی۔
|
ہینی کلوواٹ |
اگلے ہی سال سنہ 1960ء میں اس کا ایک جدید ماڈل تیار کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ان دو سالوں میں ایسی صرف 47 گاڑیاں ہی فروخت کی جاسکیں
یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معالومات میں اضافہ کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ جہاں ان برقی گاڑیوں میں چند خامیاں ہیں وہیں ان میں چند ایسی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں جن کی بدولت یہ آج بھی دنیا میں موجود جدید ترین گاڑیوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں
|
لونر روینگ وہیکل |
اس کی ایک بڑی مثال لونر روینگ وہیکل ہے جسے 31 جولائی سنہ 1971ء کو چاند کی سطح پر سفر کی غرض سے استعمال کیا گیا یہ برقی گاڑی چار عدد 0.25 ہارس پاور طاقت کی حامل ڈی سی موٹروں اور دو عدد سلور آکسائیڈ بیٹریوں پر مشتمل تھی اور 92 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی حامل تھی
ٹھیک 12 سال بعد سنہ 1973ء میں برطانیہ میں قائم اسلے آف وجیٹ کمپنی نے انفیلڈ 8000 کے نام سے دو سیٹوں پر مشتمل برقی گاڑی متعارف کروائی انفلیڈ 8000 ایک عدد 6 کلو وآٹ موٹر اور لیڈ ایسڈ بیٹریوں پر مشتمل تھی اور یہ 77 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی طاقت رکھتی تھی ایسی صرف 120 گاڑیاں تیار ہوئیں جس میں سے 65 الیکٹرسٹی کونسل اور بورڈز آف انگلینڈ کے زیرِ استعمال رہیں۔
|
انفلیڈ 8000 |
بعدازاں سنہ 1990ء میں کلیفورنیا میں قائم ائیر ریسورس بورڈ نے ماحولیاتی آلودگی کے پہلاو کو کم کرنے کے لئے ایسی گاڑیاں بنانے پر زور دیا جو قدرتی ماحول میں آلودگی کے پھیلاؤ سبب نہ بن سکیں
جس کے نتیجہ میں گاڑِی ساز کمپنیوں کی جانب سے (کرسلر ٹیوان، فورڈ رینجر ای وی، جنرل موٹر ای
وی ،چیورولیٹ ایس-10 ای وی اور ہونڈا ای وی- پلس) جیسی گاڑیاں تیار کی گئیں۔
آج دنیا میں موجود ماحولیاتی آلودگی اور اس کی بدولت پھیلنے والی نت نئی بیماریوں کو دیکھ کر اس بات کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو آٹھارویں صدی میِں موجود وہ موجد جنہوں نے ماحول دوست ایجادات کیں یا تو آن کو قدرتی حُسن سے بہت لگاو تھا یا پھر وہ دُوراندیش انسان تھے جو آنے والی صدیوں قدرتی ماحول کی بربادی کی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہتے تھے
خیر آپ کو اُداس ہونے کی بلکل ضرورت نہیں برقی گاڑیوں کو جدت دینے کا یہ سفر اب بھی جاری ہے اور آئندہ آنے والے چند سالوں میں شاید یہ گاڑِیاں ایک بار پھر سے اپنے ماحول دوست ہونے کی بدولت اپنی شہرت پہلے کی طرح قائم کر سکیں گی۔
ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں، بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ - سید مرتضیٰ حسن
0 Comments